Tuesday 5 June 2012

Dowry Excuse (1) It helps inferior girls to marry جہیز کے حیلے - اس سے کمتر لڑکیوں کی شادی جلدی ھوتی ھے


Dowry excuse (1) It helps the inferior girls to marry 

                                             aleemfalki@yahoo.com     6th June, 2012

some people make an excuse that "If the dowry and the dinner are not given, the wedding of thousands of those girls will become impossible who are not of fair color, blackish or uneducated or divorcee or widow or inferior due to many reasons". 
It is not true. The dowry would have been the best solution if it were helpful to wed such girls. If it were the case that the fair color, educated and posh family's girls were married without any dowry while only the inferiors girls needed dowry to be married, the mentioned excuse would have been acceptable. 
The situation is that the dowry is inevitable irrespective of the girls' beauty, education, financial status etc. Please kindly take a survey of 10 or 20 of your cousins and colleagues. (In fact, you will have to conduct a thorough investigation too as no one will tell you the facts honestly).

You will find that:
99% will condemn the dowry system but they have committed to accept the dowry by consent or under the "default" system. 
50% of their mothers and elders set the game, sent the proposal to those girls' houses from where they could acquire a lot without asking or bargaining.
40% of them (In fact, their parents) mentioned the list of articles and set the conditions.
5% of them refrained from extravagance and discounted many things from the normal list like Cash (Joda, Tilak or Streedhanam),Gold, Bed, Furniture, Automobile and other assets with Dinner etc. But it is not that they married without letting the parents of the girl spend a single penny. 
3% of them married in unusual situation like a love marriage, or for the sake of immigration, iqama etc where the dowry was not involved. If it were the normal circumstances, the dowry and dinner etc would have definitely been involved.
2% hardly will be those who married courageously on the Sunnat of the Prophet SAWS and did not become a burden on the bride's parents and did not allow them to spend even if the parents were capable as this was the 
occasion of setting good example of an Islamic Halaal marriage. May Allah bless them with prosperity in Iman, health, wealth and children, Aameen.

So where is the question of beautiful or Ugly, fair or unfair, educated or uneducated, virgin or divorcee/widow? No girl is pardoned of the dowry. The only difference is that the rate of the beautiful, educated and well off family's girls is slightly cheaper than the inferiors. 
Another difference is that although the dowry is compulsory for both but the beautiful's dowry is understood by default i.e. comes without bargaining and sometimes it is negotiable too but the inferior's dowry is demanded, non-negotiable.

So those who advocate the dowry in favor of inferior girls are making the life of the inferior girls more difficult by allowing this system of buying the men for these girls. The call of the hour is to eradicate the dowry from the roots and make the men realise that according to the Quran 4:34 a man (MARD) is defined as the one who spends on the woman instead of making her spend on him". This is the reason he is bestowed upon the rights on her. 

It is not wise to defend the Dowry but to stand against it on Military scale. This is the best Jihad of the hour.

بعض لوگ جہیز لینے اور دینے کی مدافعت میں یہ حیلہ پیش کرتے ہیں کہ اسکی وجہ سے ہزاروں ان لڑکیوں کی شادی آسان ہوجاتی ہے جو خوبصورت یا تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے یا مطلقہ یا بیوا ہونے کی وجہ سے گھر بسانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ان کے نزدیک جہیز لڑکیوں کی شادی کو آسان کرنے والی ایک نعمت ہے۔
یہ بہانہ ایک جھوٹ اور خودفریبی ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ساری خوبصورت اور تعلیم یافتہ  اور اچھے خاندان کی لڑکیاں بغیر کسی جہیز کے اٹھہ جاتیں اور صرف کمتر لڑکیوں کیلئے ہی جہیز کی رشوت دینی ناگزیر ہوتی تو یہ حیلہ نہ صرف قابل قبول ہوتا بلکہ اس کو ایک کارعظیم جان کر ہم سب سے پہلے اسکےلئے فنڈز  اکھٹا کرتے لیکن حقیقت 
واقعہ ایسا نہیں ہے۔ 
حقیقت یہ ھیکہ جہیز ہر صورت میں دینا لازمی ہے۔ لڑکی چاہے خوبصورت ہو کہ بدصورت، تعلیم یافتہ ہو کہ ان پڑھہ، کنواری ہو کہ بیوا یا مطلقہ۔ جہیز کے بغیر لڑکی کا بیاہنا آج کے معاشرے میں ناممکن ہوچکا ہے۔ اگر آپ مزید حجت اور تکرار میں پڑے بغیر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو اپنے کزنس یا ساتھہ کام کرنے والوں میں سے دس بیس کا سروے کیجئے۔ بلکہ ذرا تحقیق بھی کیجئے کیونکہ بہت کم لوگ آپ کو سچائی اور ایمانداری سے ہر بات بتائینگے۔ 
آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ
ننانوے فیصد یہ کہیں گے کہ وہ جہیز کی رسم کے خلاف ہیں۔ ان کے خاندان میں یہ رسم بالکل نہیں پائی جاتی لیکن تحقیق پر پتہ چل جائیگا کہ یہ سارے نناوے فیصد خوشی سےیا فرمائش یا مطالبے کے ذریعے جہیز کسی نہ کسی طرح لے چکے ہیں۔
پچاس فیصد وہ ہونگے جنکے ابا جان یا امی جان نے پورا میدان ان کے لئے سیٹ کیا۔ رشتہ بڑی چالاکی سے اسی لڑکی کے گھر بھیجا جہاں سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور بغیر مانگے ہی خوشی سے دینے کے نام پر یا رواج و سسٹم کے نام پر ہر چیز مل جائے تاکہ یہ لوگ شان سے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے کچھہ نہیں مانگا تھا۔ سب کچھہ لڑکی والوں نےزبردستی دیا ہے۔ 
چالیس فیصد وہ ہونگے جو خود یا ان کی امی جان وغیرہ نے لڑکی والوں کو اپنی فرمائش اور شرائط سے آگاہ کردیا  تھا۔
پانچ فیصد وہ ہونگے جنہوں نے جتنا لے سکتے تھے اتنا نہیں لیا کئی چیزوں میں ڈسکاونٹ کردیا ورنہ نقد رقم جسکو جوڑا، تلک یا استری دھنم کہاجاتاہےاسکے ساتھہ ساتھہ پلنگ، فرینچر، سونا، کار یا موٹر سائیکل اور شاندار دعوت طعام تو وصول کیا جاسکتا تھا۔
تین فیصد وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اقامے، ایمیگریشن یا لومیریج کی مجبوریوں کی وجہ سے کچھہ نہیں لیا ورنہ عام حالات میں شادی ہوتی تو کسی چیز سے ہرگز انکار نہیں کرتے۔
دو فیصد بمشکل وہ ہونگے جنہوں نے واقعی سنت نبی صل اللہ و علیہ و سلم کو زندہ کیا لڑکی والوں پر کوئی بوجھہ ڈالے بغیر نکاح کیا، مہر ادا کیا اور حسب استطاعت ولیمہ دیا۔ لڑکی والے اگر استطاعت بھی رکھتے تھے تب بھی ان لوگوں نے سنت کو زندہ کرنے اس حرام سے پرہیز کیا اور ایک مثال قائم کی اللہ ایسے لوگوں کے ایمان، دولت، صحت اور اولاد میں برکت عطا فرمائے۔

اب بھلا بتلائے کہ کم صورت یا خوبصورت، تعلیم یافتہ یا ان پڑھہ، کنواری یا بیوا کا کہاں سوال اٹھتا ہے۔ جہیز تو ہر دو صورتوں میں دینا ہی دینا ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہیکہ خوبصورت یا تعلیم یافتہ لڑکیاں ذرا کم جہیز پر اٹھہ جاتی ہیں اور کم صورت لڑکیوں کے لئے لڑکوں کو زیادہ قیمت میں خریدنا پڑتا ہے۔ ایک اور فرق یہ بھی ہیکہ جہاں لڑکیاں خوبصورت ہوں وہاں مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بغیر مانگے بہت کچھہ مل ہی جاتا ہے اور بھاو چکانے میں کچھہ کم زیادہ بھی طئے ہوسکتا ہے لیکن جہاں تک کمتر لڑکیوں کا معاملہ ہے وہاں مطالبہ منوایا جاتا ہے اور بھاو چکانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک کمتر بیٹی پیدا کرنےکے جرم میں اسکے باپ یا بھائی کو قیمت چکانی ہی پڑتی ہے ورنہ لڑکا اور اسکی ماں کسی اور در کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔

اس طرح جو لوگ کمتر لڑکیوں کی ہمدردی میں جہیز کی دفاع کررہے ہیں وہ لوگ در اصل ان لڑکیوں کی مشکلات اور بڑھارہے ہیں۔ اور لڑکوں کی قیمت میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ لڑکیوں کی قیمت، عزت اور وقار گرارہے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہیکہ جہیز کے حرام ہونے پر کھل کر کہیں اور مردوں کی خودداری اور مردانگی کو زندہ کریں اور قرآن سورہ نساء آیت چوتیس کی روشنی میں کھل کر کہیں کہ مرد کی اسلام میں تعریف یہ ہیکہ جو عورت پر مال خرچ کرے۔ جو عورت یا اسکے والدین سے پیسہ اور دعوتیں وصول کرے وہ قرآن کی تعریف کے مطابق مرد باقی نہیں رہتا۔ جہیز کی خلاف ایک جنگی پیمانے پر اٹھہ کھڑا ہونا اور اسکو جڑ سے مٹانا آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ اس دور کا سب سے بڑا جہاد ہے

aleemfalki@yahoo.com    ..6th June, 2012

No comments:

Post a Comment